مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے انکشاف کیا ہے کہ اپنے حالیہ دورہ امریکہ کے دوران تہران نے واشنگٹن کے ساتھ براہِ راست اور بالواسطہ پیغامات کا تبادلہ کیا، تاہم اس عمل سے ثابت ہوگیا کہ امریکہ سے مذاکرات بے نتیجہ ہیں، جیسا کہ رہبر انقلاب نے پہلے ہی فرمایا تھا۔
وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ اگرچہ اس دورے کا ایک حصہ اسنیپ بیک میکانزم کو فعال کرنے کی غیر قانونی کوششوں سے متعلق تھا، لیکن تہران نے اس موقع کو دوطرفہ تعلقات کو وسعت دینے، کثیرالملکی تعاون کو مضبوط کرنے اور بین الاقوامی امور پر ایران کے مؤقف کو آگے بڑھانے کے لیے بھی استعمال کیا۔
عراقچی نے کہا کہ میں نے 31 سے زائد ممالک کے وزرائے خارجہ سے دوطرفہ ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں میں جوہری مسئلے کے ساتھ ساتھ دوطرفہ تعلقات، تعاون کے امکانات، اقتصادی شراکت داری اور مشترکہ کمیشنز پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ایران ے روس، چین اور پاکستان کے ساتھ افغانستان پر چار فریقی اجلاس میں بھی شرکت کی، جس میں اقوام متحدہ کے دائرے سے باہر ایران کے تعمیری علاقائی کردار کو اجاگر کیا گیا۔
عراقچی نے مزید کہا کہ یورپی تین ممالک، اقوام متحدہ اور آئی اے ای اے کے ساتھ تفصیلی مذاکرات کے باوجود کوئی سمجھوتہ ممکن نہ ہوسکا، کیونکہ امریکہ کے مطالبات حد سے زیادہ تھے اور یورپی ممالک ان کے ساتھ ہم آہنگ تھے۔ اس حوالے سےایران کا مؤقف بالکل واضح ہے۔ ہمیں ایسا کوئی معاہدہ قابل قبول نہیں ہوگا جو ایرانی عوام کے حقوق اور مفادات کو نقصان پہنچائے۔
عراقچی نے کہا کہ ہم نے امریکہ کے ساتھ براہ راست اور بالواسطہ پیغامات کا تبادلہ کیا۔ آخرکار یہ بات ثابت ہوگئی کہ رہبر انقلاب کا مؤقف کہ امریکہ سے مذاکرات ایک بند گلی ہیں، درست ثابت ہوا۔
انہوں نے مغرب کی جانب سے اسنیپ بیک میکانزم کو خوفناک ہتھیار بنانے کی کوشش کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے سمجھا کہ ہم اس قدر خوفزدہ ہوجائیں گے کہ ہر قسم کی رعایت دینے پر آمادہ ہوجائیں گے، لیکن یہ بالکل غلط ہے۔
عراقچی نے کہا کہ اقوام متحدہ میں اب ایران کو قانونی چیلنج کا سامنا ہے، اور روس و چین بھی ایران کے مؤقف کے حامی ہیں کہ یہ اقدامات غیر قانونی اور بے بنیاد ہیں۔ سلامتی کونسل، اقوام متحدہ اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی میں اب ایک نئی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ ہماری نظر میں اسنیپ بیک فیصلے پر کوئی اتفاق رائے موجود نہیں تھا، اور روس و چین بھی یہی سمجھتے ہیں۔
عراقچی نے واضح کیا کہ یہ تمام امور اب اعلی قومی سلامتی کونسل اور اس کی جوہری کمیٹی میں زیر غور آئیں گے، اور ملکی مفاد کے مطابق فیصلے کیے جائیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ اعلی قومی سلامتی کونسل کی جانب سے مدبرانہ اور درست فیصلے کیے جائیں گے۔
آپ کا تبصرہ